سلسلئہ صابریہ کے کبیرالشان بزرگ حضرت شاہ محب اللہؒ الہ آبادی ۲ صفر بروز جمعہ ۹۹۶ ھ مطابق یکم جنوری ۱۵۸۸ ء بعہد جلال الدین محمد اکبر صدرپور نواح خیرآباد (اودھ) میں پیدا ہوئے۔ ماں کے آغوش اور باپ کا سایہ میں پرورش پائی آپ کے نانا قاضی اسمعیل ہرگامی اپنے وقت کے بہت بڑے عالم تھےـ- ابتدائی تعلیم اپنے والد حضرت شیخ مبارز سے حاصل کی اور دیگر کتابیں مقامی علماےَ وقت سے پڑھیں آپ کو علم حاصل کرنے اس قدر شوق تھا کہ اپنے دو ماموں زاد بھائیوں کے ساتھ لاہور تشریف لے گئے- لاہور اس زمانے میں اسلامی دارالعلوم تھا کاملین تفسیر حدیث فقہ بکثرت جمع ہو گئے تھے لاہور میں مُلّا عبدالسلام لاہوری جو اس وقت کے فقیہ وعالم تھے ان کا درس جاری تھا شاہ محب اللہؒ الہ آبادی نے ان کی شاگردی اختیار کی- سولہویں صدی میں بعد اپنی تصنیف ترجمعتہ الکتاب و شرح فصوص الحکم عربی و فارسی کے بعد اپنی کتاب انفاس الخواص عربی کے دیباچہ میں خود شیخ نے تحریر ہے کہ جس زمانے میں لاہور میں تھا۔ ایک مکان کرایہ پر لے رکھا تھا اس مکان کے ایک گوشہ میں ایک دیوانہ محبوس تھا ایک روز آدھی رات کو وہ مر گیا اس کی بیوی نے اس قدر نالہ و فریاد کیا کہ مجھکو وحشت نے آگھیرا۔ اس فکر میں غرق رہا کرتا تھا کہ مبداًومعاد کیا ہے روح کیا چیزہے کہاں سے آئی کہا جائے گی۔ شیطان میرے دل میں خطرات و وساوس ڈالتا اور عقائد حسبانیہ میری نگاہ میں لاتا تھا۔ میں لاحول پڑھتا اور اللہ جل شانہ سے استعانت چاہتا۔ اب میں نے تفسیر بیضاوی شروع کی میرا کوئی بھی لمحہ فکر سے خالی نہیں گزرتا کبھی قرآن کے ساتھ ہوتا اور کبھی نفس و شیطان کے ساتھ ہوتا کبھی مومن بنتا اور کبھی کافر ہوتا کبھی اچھے خیالات ہوتے کبھی برے۔ اسی کشمکش میں میں نے دستگیر بے کساں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم مثال میں دیکھا کہ مجھ سے فرماتے ہیں کے محب اللہ جو کچھ تجھے دیا گیا ہے وہی حق ہے جب میں جاگا تو اپنے کو وساوس اور خطرات سے دور پایا اور مطمئن ہو گیا۔ میں نے ایک دوسرا مکان کرایہ پر لے لیا۔ ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کوئی کہہ رہا ہے کہ حضور سید کائنات خلاصئہ موجودات حبیب خدا شفیع روز جزا محمدمصطفےٰﷺ بازار میں جو میرے کے داہنی جانب تھا جلوہ افروز ہیں۔ میں دوڑا سب سے پہلے حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہونچا اور قدم بوسی کی نبی کریم ﷺ چند قدم آگے جا چکے تھے میں حضور کی خدمت میں پہونچا آنحضرت ﷺ نے پہلے سے بھی زیادہ محبت شفقت سے نوازا اور فرمایا۔ اذھب انک انت مقبولیعنی جاوَ تم مقبول ہو۔ اس ارشاد مبارک کے بعد یہ معلوم ہوا کہ تمام خطرات ووساوس دل سے نکل گئے اور تمام عالم کی حقیقت منکشف ہوگئی۔ لاہور سے جب علوم ظاہری سے فراغت حاصل کر لی تو حضرت میاں میر لاہوری اور نواب سعداللہ خاں اور شاہ محب اللہ کے درمیاں یہ قول و قرار پایا تھا کہ جہ جس دولت ظاہری یاباطنی پر پہونچے گا وہ دوسرے کو بھی پہونچائے گا۔ میاں میر لاہوری درجئہ ولایت کو پہنچے اور نواب سعد اللہ خاں ترقی کرتے کرتے دروغئہ چرم خانہ سے وزیراعظم شاہ جہاں ہوئےبعد تکمیل علوم ظاہری کے جب میں اپنے مکان صدرپور پہونچا تو فکر معاش نے پریشان کیا کیونکہ شادی ہو چکی تھی میں نے ایک رات حضور نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا حضور کی نگاہ کرم میری طرف کم ہے اور اس کم التفاتی کا سبب (تلاش معاش) جان کر شدید روحانی اذیت میں مبتلاہو گیا میں نے چاہا کہ صحرا کی راہ لوں مگراللہ جل شانہَ کا کر مجھ پر کرم ہوا میں اپنے وطن صدرپور لوٹ آیا اور تشنگان علم کو بڑھانے کا شغل اختیار کیا۔ میں نے باوجود تفکرات کے شغل پاس انفاس اور علم وحدت جو استاد اول نے تعلیم فرمایا تھا کسی بھی حالت میں فوت نہیں ہونے دیا بلکہ ترقی دیتے رہے اور یقین تھا کہ بس مومن ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ مشائخ طریقت کے واردات و تجلیات جو لوگ بیان کرتے ہیں محض واقعہ و کہانی ہے۔ مگر اتنا ظرور تھا کہ ان کہ اذکار نے مجھکو عرصئہ دراز سے حیران اور متعجب کر رکھا تھا اسی حالت حیرانی میں کسی شخص نے مجھ سے شیخ کبار حضرت ابو سعید گنگوہی کہ حالت بیاں کئے۔ میں ان باتوں کو قدر الٰہیہ کے خلاف سمجھتا تھا پھر بھی ان معلومات سے ولولہ و جوش پیدا ہوا کہ کاملین وقت کو اپنی آنکھوں سےدیکھوں اور ملاقات کروں۔ چنانچہ اس حقیقت کی سچائی کی طلاش میں گھر سے نکل پڑاجہاں جہاں اولیاء کاملین کے مزارات ملتے گئے وہاں وہاں سے فیوض و برکات سمیٹا تا رہا اور جو اولیاء کاملین حیات میں تھے ان کی خانقاہوں میں حاظری دیتا ہوا دہلی پہونچ گیا۔ دہلی میں یہ واقعہ ہوا کہ نواب سعداللہ خان وزیر اعظم شاہ جہاں ہوادارپر بیٹھے شاہی قلعہ سے اپنے محل لوٹ رہے تھے اور شاہ محب اللہ بھی اسی راستہ سے بصورت فقر درویشی گزر رہے تھے چونکہ ایک مدت تک ایک دوسرے کا ساتھ رہ چکا تھا اس وجہ سے شاہ محب اللہ ؒ نے ان کو پہچان لیا۔ اور ادھر نواب سعد اللہ خان کو بھی کچھ شبہ ہوا شاہ محب اللہ فورًاایک دوکان میں داخل ہو گئے۔ نواب صاحب چونکہ دیکھ لیا تھا اس لئے اپنے ملازموں سے کہا کہ اس درویش کو جو سامنے کی دوکان میں ابھی ابھی گئے ہیں اپنے ہمراہ لے کر آؤ۔ اگر خشی سے نا آویں تو زبردستی لاؤمگر خبردار کوئی گستاخی نہ کرنا ۔ شاہ محب اللہؒ بہ اصرار محل میں تشریف لے گئے تو نواب سعد اللہ خان گلے لپٹ گئے فورًا حمام کروایا اور معمولی لباس اترواکر شاہانہ لباس پہنوایا۔ اور ایک خاص وقت میں شاہ جہاں بادشاہ سے عرض کیا کہ میرے بڑے بھائی محب اللہ تشریف لائے ہیں دراصل وہیں عہدہ وزارت کے لائق ہیں اور مجھ کو ان کی نیابت میں کام کرنے کا حکم دیا جائے انشاء اللہ ایسی صورت میں امور صلطنت بہت خش اسلوبی سے انجام پائیں گے۔ شاہ جہاں پر نواب صاحب کی قابلیت کا سکہ بیٹھا ہی ہوا تھا وہ سمجھ چکا تھا کہ نواب صاحب جس کی اتنی تعریف کر رہے ہیں یقیناً ارسطووافلاطون سے کم نہ ہوگا۔ شاہ جہان چونکہ علم دوست تھا اور قابل لوگوں کی فکر میں رہتا تھا اور قدر کرتا تھا اس لئے شاہ محب اللہؒ کی تعریف سن کر ملاقات کے لئے بیچین ہو گیا فورًا خاصہ کی سواری بھیج کر شاہ محب اللہ کو دربار میں بلوالیا۔ شاہ جہاں نے چند ایسے سوال پو چھے جس کا جواب بڑے بڑے علماء وقت دینے سے قاصر رہ چکے تھےشاہ محب اللہ کا جواب سن کر شاہ جہاں بہت خش ہوا اور آپ کی نورانی شکل اور روشن سیرت دیکھ کر آپ کا گردیدہ ہو گیا اور اسی وقت وزارت اور جاگیر تجویز کی چونکہ اس وقت عقیدت کہ لحاظ سے دہلی میں یہ قاعدہ تھا کہ جس شخص کہ کوئی خلعت یا منصب دیا جاتا تھا تہ وہ سلام وفاتحہ کے لئے حضرت قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہ کے مزار پر حاضری دیتا تھا شاہ محب اللہ کو بھی اعرزازی حیثیت سے مہرولی شریف جانا پڑا۔ جب آپ قطب صاحب کی مزار کے پاس پہونچے تو فوج سے فرمایا تم لوگ یہیں رکو میں تنہا پیدل آستانے تک جاؤں گا، یہ کہ کر آپ تنہا مزار اقدس کی طرف روانہ ہوگئے یہاں فوج کو انتظار کرتے کرتے صبح سے شام اور شام سے صبح ہوگئی عاجز آکر فوج کے چند لوگ قطب صاحب کی مزار پر پہونچے مجاوروں سے معلوم ہوا کہ کل ایک امیر زادے مزار شریف پر حاضر ہوئے تھے حاضری کے بعد اپنا شاہانہ لباس اتار کر ہم لوگوں سے گزی کی تہبند لے کر پہنا اور پہاڑی کی طرف چلے گئے تمام فوج نے پہاڑی کو چھان مارا مگرشاہ محب اللہ کا کوئی پتہ نہیں ملا جب نواب سعد اللہ خان کو سارےحالات کا علم ہوا تو آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ ہم نے شاہ باز طریقت کو دنیا میں الجھانا چاہا مگر اس سالک طریقت کا قدم دنیا میں نہیں پھنس پایا صاحب مراَۃ الاسرارعبدالرحمان چشتین جن جن کو شاہ محب اللہۙؒ شرف ملازمت تھا۔ واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ شاہ محب اللہؒ حضرت قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہ کی مزار پر حاضر ہوئے تو آپ کو ایک غیبی آواز سنائی دی۔ اے محبّ اللہؒ اللہ نے تم کو امور ظاہری کے لئے نہیں پیدا کیا ہے بلکہ باطنی امور کی وابستگی کے لئے پیدا کیا ہے۔ آج کل سلسلہ صابریہ کی گرم بازاری ہے گنگوہ جاؤ اور ابو سعید گنگوہیؒ سے مرید ہو۔ادھر حضرت ابو سعید گنگوہی کو بزریعہ واردات قلبی منکشف ہوا کہ محب اللہ کو تمہارے سپرد کیا تم ان کو اللہ تک پہو نچاؤ۔ یہ اشارہ پاتے ہی آپ مسند وزارت کو چھوڑ کر گنگوہ روانہ ہو گئے بحر زخار میں بھی یہ واقعہ ایسا ہی لکھا ہوا ہے۔ جب آپ گنگوہ تشریف پہونچے تو آپ کے مرشد کو آپ کا آنا بزریعہ کشف معلوم ہو گیا تھا۔ خادم خاص مجاہد کو حکم دے رکھا تھا کہ دو لوٹے پانی گرم تیار رکھنا اور جو حلوہ درویشوں کے لئے بنتا ہے زیادہ کرکے بنائے۔ دستک کی آواز سنکر آپ کے مرشد باہر آئے اور ملاقات کی اور بعد وضو درمیان سنت و فرض فجر کے بیعت سے مشرف فرمایا اور حلوہ حاضرین میں تقسیم کروایا۔ حضرت ابو سعید گنگوہی نے اپنے خاص خادم مجاہد سے فرمایاکہ دیکھو محب اللہ کی استعدادکس نبی کی ولایت سے مناسبت رکھتی ہے تا کہ اسی کے مطابق تعلیم وتلقین کی جائے۔ خادم محرم اسرار جلی و خفی نے شاہ محب اللہ اللہ کی طرف توجہ کی تو معلوم ہو کہ استعداد ولایت موسوی سے مناسبت رکھتی ہے حضرت ابو سعید گنگوہی قدس سرہ نے شاہ محب اللہؒ کو شغل نفی و اثبات واسم ذات تصور شیخ کے ساتھ ہدایت کرکے چلے میں بیٹھا دیا۔ شاہ محب اللہؒ کو اس چلے میں اس قدر صفائی ہوئی کہ جو مقدمات علوم غامضہ کے ان پر لاحل رہ گئے تھے بخوبی کھل گئے اور تجلیات ملکوتیہ و جبروتیہ ظاہر ہو گئے لیکن تجلی لا کیف اس چلے میں ان کو میسر نہیں ہوئی حالانکہ شاہ محب اللہ اس تجلی کے خواہاں اور جویاں تھے۔ ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ حضرت شاہ ابو سعید گنگوہی نے آپ کی روحانی ترقیات کو دیکھ کر حجرے کے دروازہ سے آواز دی محب اللہ۔ شاہ محب اللہؒ نے کچھ دیر کے بعد مراقبہ شکر و فنا سے کہا محب اللہ کہاں ہے۔ حضرت ابو سعید گنگوہی قدس سرہ نے فرمایا حجرے کے باہر آؤ تم کو ہم نے اللہ تک پہونچا دیااور پورب کی ولایت تمھارے سپرد کردی دوسرے سالکین جو عرصئہ دراز سے خانقاہ گنگوہ میں مقیم تھے رنجیدہ ہوکر عرض کیا یا حضرت ہم لوگ ایک عرصہ سے ریاضت و مجاہدہ کر رہے سیدنا ابو سعید گنگوہی قدس سرہ نےارشاد فرمایا تم لوگوں نے نہیں جانا محب اللہ کون ہیں ان کی تکمیل ہو چکی تھی استعداد پوری پوری تھی روشنی کے ذرائع ہمراہ لائے تھے میں نے صرف روشن کر دیا جب شاہ محب اللہ حجرے کے باہر آئے تو پیر مرشد نے گلے لگایا اور بہت خش ہوئے۔ پھر آپ کو خرقہ پہنایا اور عمامہ سر پر باندھا اور توجہ باطنی آپ کی طرف مرکوز کرکے فاتحہ کیلئے ہاتھ اٹھایا اس وقت تجلی لا کیف نے آپ کے دل پر تووجہ فرمایا یہاں تک کہ آپ ضبط نہ کر سکے اور چیخ اٹھے یا حضرت بس کیجئے۔ اس سے زیادہ استعداد اور حوصلہ اس مشاہدہ کا نہیں ہے پھر مرشد نے توجہ فرمائی جس سے صحت و تمکین کا مرتبہ حاصل ہو اور آپ مغلوب الحال نہیں ہوئے۔ ۲۴ربیع الاول ۱۰۳۱ بروزیکشبنہ کو سند خلافت عربی زبان میں تحریر کرکے عطا کی۔ دل مثل آئینہ کے صاف ہو چکا تھا پیرو مرشد کی صحبت کیمیا اثر سے وہ فیض حاصل ہوا کہ سارے شکوک شبہات دھل گئے۔ تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب اتنا حاصل ہوا کہ چیز کا علم صدیقین تک ہو جاتا تھا۔ گنگوہ سے شاہ محب اللہؒ اپنے وطن صدرپور آئے کچھ عرصہ صدرپور میں رہے مگر وہاں کا قیام آپ کے فقر کے شان کے خلاف تھا اس لئے عازم الہ آباد ہوئے۔ صاحب مراَۃ الاسرار لکھتے ہیں کہ جس وقت شاہ محب اللہؒ رودولی شریف پہونچے فقیر بھی اس جگہ موجود تھا، از راہ دوستی فقیر کی قیام گاہ پر ٹھرے شاہ محب اللہ میں نہایت عمدہ خصلتیں دیکھکر میں ان کا شیفتہ ہو گیا چند روز کے بعد حضرت قطب ابدال شیخ عبد الحق قدس سرہ کی طرف سے نوازش بشارت پائی۔ وہاں سے بھی قطب الہ آباد ہونے اور الہ آباد جانے کی اجازت ملی صاحب مراۃ الاسرار فرماتے ہیں کہ بالتفاق رائے باہمی ردولی شریف سے روانہ ہوکر اپنے گھر پہونچا چند روز محبت و ویگانگی کے فقیر کے گھر قیام فرمایا ان ایام میں میر سید عبدالحکیم پٹنوی آپ کے رفیق تھے اور آپ کی خدمت میں کسب فضائل کر رہے تھے۔ صاحب بحر زخار لکھتے ہیں کہ وہاں سے چل کر قصبہ مانکپور ضلع پرتاپ گڑھ پہونچے تومزار حضرت مخدوم شیخ حسام الحق اولیاء قدس سرہ پر حاضر ہوئے۔ شاہ جمال الدینؒ سجادہ نشین کو بہ اشارہ باطن مزار اقدس سے اشارہ ہوا کہ شاہ محب اللہؒ کو عمامہ باندھو اور دو روپیہ بطور نزر پیش کرو آپ نے اس دستار سے سر افتخار کو بلند کیا اور مانکپور سے روانہ ہوئے۔ اور تحریر شریعت آگاہ شاہ عبید اللہؒ سجادہ نہم یہ ہے کہ بعد زیارت حضرت مخدوم مانکپوری آپ الہ آباد تشریف لائے اور لب دریائے جمنا قیام فرمایا جو اس وقت پیر زادوں کی باغ نئی بستی کےنام سے مشہور ہے۔ ابتدائی دنوں میں فقر و فاقہ رہا آپ نے صبر و شکر سے برداشت کیا پھر آپ کی شہرت کی خبر قاضی صدرالدین المعروف قاضی گھاسی ابن قاضی داؤد قلع دار قلع اکبری کو پہونچی۔ خلق خدا اور تشنگان علم و ہدایت سیراب ہونے لگے۔ اس جائے قیام سے متصل جانب گوشہ دکھن پورب جامعہ مسجد اکبری تھی اب بھی اس کا کچھ نشان جمنا برج کے پورب جانب پایا جاتا ہے مسجد مذکور کے پورب جانب میدان (پریڈ) پیش قلع اکبری ہے مسجد مذکور سے ملا ہوا ایک عظیم الشان مکان قاضی داوؤد حاکم شہر کا تھا اس مکان کے دکھن جانب آب دریائے جمنا رواں تھا وہ مقام بہت دلکش و پرفضا تھا مگر اجنہ کے قبضہ کی وجہ سے قاضی صاحب نے اس کو خالی کر دیا تھا اور قلعہ میں رہنا اختیار کر لیا تھا۔ جب قاضی گھاسی صاحب آپ کے شاگرد ہوئے تو تو تشنگاں علم کی کسرت ہوئی قاضی صاحب نے وہ مکان شاہ محب اللہؒ الہ آ بادی کے نزر کر دیا شاہ محب اللہؒ نے شیخ محمدیؒ فیاض جہ اس وقت بحیثیت ایک طالب علم کے تھے، بلاکر ارشاد فرمایا کہ اس مکان کے صدر دروازے پر کھڑے ہو کر کہہ دو کہ مکان جب امیر کا تھا تو تم قابض تھے اب فقیر اور طالب خدا کا ہے چھوڑ دو اور کہیں اور چلے جاؤ۔ اس پیام کے کہتے ہی اجنہ نے مکان کو خالی کر دیا پھر اس مکان میں مسافر اور طالب علم رہنے لگے۔ مگر خد شاہ محب اللہؒ الہ آبادی اس جگہ رہتے تھے جہاں پہلے دن آکر قیام کیا تھا۔ اس مکان پر ایک پھوس کا چھپر تھا اس میں آپ رہتے تھے اور طلباء کو علوم ظاہری و باطنی کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ نماز پنج گانہ جمعہ عیدین و غیرہ جامعہ مسجد اکبری میں ادا فرماتے تھے بعد ولادت شیخ تاج الدینؒ آپ کے اہل و عیال بھی صدرپور سے آگئے اور اس مکان کے ایک حصہ میں رہنے لگے اور عرصہ دراز تک آپ کے اہل و عیال کا مسکن رہا جب دریائے جمنا نے اتر جانب بڑھنا شروع کیا اور اس مکان سے متصل پانی ہو گیا تو قاضی داؤد صاحب پدر قاضی گھاسیؒ صاحب نے اپنا ایک غیرآباد پختہ مکان محلہ بہادرگنج میں شاہ محب اللہؒ کے نزر کر دیا۔ پھر وہ جامعہ مسجد اکبری ۱۸۵۷ء کے غدر میں باغیوں کی پناہ گاہ کے باعث شہید ہو گئی، اس کے کچھ نشانات قبہ وغیرہ سڑک کے کنارے اب بھی پائے جاتے ہیں اور وہ مکان بھی منہدم ہوکر بے نشان ہو گیا۔ حضرت شاہ محب اللہؒ الہ آبادی ستائس برس تین مہینہ پندرہ دن ہدایت خلق میں مصروف رہ کر باسٹھ برس پانچ مہینہ سات دن کی عمر میں آٹھویں رجب بروز پنجشنبہ قریب غروب آفتاب ۱۰۵۸ ھ بعہد شاہ جہاں میں دارالبقاء تشریف لے گئے دوسرے دن بعد نماز جمعہ اس مقام پر جہاں روز اول آکر قیام کیا تھا اور جسے قیامت تک کے لئے پسند فرمایا تھا تدفین ہوئی جہاں پر اب پختہ چبوترہ مع تعویز تربت تعمیر کردہ حضرت قاضی گھاسی صاحبؒ خلیفئہ اول، زیارت گاہ و حاجت روائے خلق موجود ہے۔ چبوترہ کھوکھلا ہے تربت اندرون چبوترہ خام ہے۔
آپ کی تاریخ وفات مولانا روح اللہ خان فردیہ ہے۔
مخدوم ملک وحدت سلطان عارفاں
برہان فضل و دانش محبوب سالکاں
ترویج علم وحدت در عہد دولتش
گشت آن چنان کہ بود در آوان مرسلان
اوصاف آن محب اللہی نہ آن قدر
کانرا قلم در آرد در حیطئہ بیان
بعد از فراغ کار ہدایت بایں جہاں
بر بست رخت و رفت بہ تلقین قدسیان
تاریخ چونکہ جست خرد گفت حاتفے
والی بہشت شد بہدایت ملا ئکاں
۱۰۵۸ ھ
دیگر صاحب منجر الواصلین
شیخ عرفاں پناہ عالی جاہ
مظہر فیض حق محب اللہ
گوہر معدن حقائق بود
سال ترحیل او بہ نیک نسق
گفت قطب الشیوخ مظہر حق
مرقد اوست در الہ آباد
موقع فیض منزل ارشاد
۱۰۵۸ ھ
اہل علم پر مخفی نہیں ہے کہ قائلین وحدۃ الوجود کے امام اور شریعت و طریقت کے ماہر حضرت محی الدین ابن عربی قدس سرہ تھے جن کا لقب شیخ اکبر تھا اسی طرح حضرت شاہ محب اللہؒ الہ آبادی جامع علوم ظاہری و باطنی و ماہر آیات قرآنی و احادیث نبوی اور واقف اسرار شریعت و طریقت تھے شیخ اکبر کی ذات سے آپ کو بلحاظ انکشافات و مناظر و ملاحظہ یگانیت و اتحاد تھا۔ جیسا کہ شیخ اکبر پر نبی کریم ﷺ کی ذات عالی سے ہمیشہ فیضان علوم ہوتا تھا ویسا ہی حضرت شاہ محب اللہؒ الہ آبادی پر تھا شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی کی طرح آپ بھی عامل بلکتاب ولسنت تھے جن جن مضامین میں شیخ اکبر کی تصانیف ہیں انھیں مضامین میں حضرت شاہ محب اللہؒ الہ آبادی کی تصانیف موجود ہیں۔ مسلاً فصوص الحکم کی طرز پر آپ کی کتاب انفاس الخواص اور فتوحات کے طرز پرعبادات الخواص موجود ہے۔ آپ کہ اقوال سے ہے کہ میں نے اس قدر کتابیں تصوف میں لکھیں ہیں کہ کسی اور کی میرے مطالعہ میں نہیں آئیں اور یہ سب بوجہ فیض اس کلمہ کے ہیں جو پہلے دن میرے پیر مرشد ابو سعید گنگوہی قدس سرہ نے لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کی تلقین فرمایا تھا۔
نسب نامہ
آپ قطب اکبر حضرت بابا فرید الدین گنج شکر قدس سرہ کی اولاد ذکور سے ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
۱ ،شیخ محب اللہؒ
۲، ابن شیخ مبارزؒ
۳، ابن شیخ پیرؒ
۴، ابن شیخ بڑےؒ
۵، ابن شیخ مٹھےؒ
۶، ابن شیخ رضی الدینؒ
۷،ابن شیخ اوحد الدینؒ
۸، ابن قاضی شیخ امجد الدین فیاضؒ
۹، ابن حاجی قاضی جمیل الدینؒ
۱۰، ابن قاضی رفیع الدینؒ
۱۱، ابن شیخ محب اللہ فیاضؒ
۱۲، ابن حاجی شیخ رستم اللہؒ
۱۳، ابن شیخ حبیب اللہؒ
۱۴،ابن حاجی شیخ ابراہیمؒ
۱۵، ابن قاضی شیخ علاءالدین فیاضؒ
۱۶، ابن شیخ امام قاسمؒ
۱۷، ابن قاضی شیخ عبد الرزاقؒ
۱۸، ابن جامع العلوم شیخ عبد القادرؒ
۱۹، ابن حاجی شیخ ابل الفتحؒ
۲۰،ابن شیخ عبد السلامؒ
۲۱، ابن شیخ خضر فیاضؒ
۲۲،ابن شیخ شہاب الدین گنج علمؒ
۲۳، ابن حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ
اولاد حضرت شیخ محب اللہ الہ آبادیؒ
۱، شاہ محب اللہ الہ آبادیؒ
۲،شاہ محمد سیف اللہؒ سجادہ اول
۳،شاہ محمد حبیب اللہؒ دوم
۴، شاہ غلام محب اللہؒ سوم
۵، شاہ محمد خلیل اللہؒ چہارم
۶،شاہ محمد عبید اللہؒ اول پنجم
۷، شاہ محمد حبیب اللہؒ ششم
۸،شاہ محمد فضل اللہؒ ہفتم
۹، شاہ محمد نعمت اللہؒ ہشم
۱۰، شاہ محمد عبید اللہؒ ثانی نہم
۱۱، شاہ محمد سیف اللہ ثانی موجودہ سجادہ نشین
۱۲، مفتی حافظ قاری شاہ محمد مقرب اللہ(نائب سجادہ نشین حضرت شاہ محب اللہ الہ آبادیؒ)
کتب تذکرہ سے شاہ محب اللہ ؒ کی جن کتابوں کا پتہ چلتا ہے وہ درج ذیل ہیں۔
(۱) ترجمعۃ الکتاب (عربی) ایک جلد خانقاہ میں موجود ہے
(۲) شرح فصوص الحکم (عربی) ۲ جلد خانقاہ میں موجود ہے
(۳) شرح فصوص الحکم (فارسی) ۱جلد موجود ہے
(۴) مناظراخص الخواص (فارسی) ۴ جلد خانقاہ میں موجود ہے
(۵) انفاس الخواص (عربی) ۲ جلد خانقاہ میں موجود ہے
(۶) عقائدالخواص (عربی) ۳ جلد خانقاہ میں موجود ہے
(۷) غایت الغایات (فارسی) ۱ جلد خانقاہ میں موجود ہے
(۸) ہفت احکام (فارسی) ۳ جلد خانقاہ میں موجود ہے
(۹) رسالئہ تسویہ (عربی) ایک جلد موجود ہے ۔اردو ترجمعہ کے ساتھ خانقاہ سے شائع ہو چکی ہے
(۱۰) شرح تسویہ (فارسی) ۱ جلد موجود ہے
(۱۱) عباادت الخواص (فارسی) ایک جلد موجود ہے
(۱۲) اورد محبی (فارسی) ۳جلد موجود ہے
(۱۳) مجموعہ مکتوبات (فارسی) ۳جلد موجود ہے
(۱۴) رسالہ توحید کلمۃ التوحید (فارسی) ایک جلد خانقاہ میں موجود ہے
(۱۵) رسالہ سیر اللہی (فارسی) ایک جلد موجود ہے بقول ایک ایرانی
(۱۶) رسالہ وجود مطلق (فارسی) ایک طویل خط ہے جو شیخ عبد الرحیم مانک پوری کو لکھا گیا تھا اور اس کو نہیں بھیجا جا سکا۔
وہ کتابیں جو خانقاہ میں موجود نہیں ہیں۔
(۱) حاشیہ ترجمعۃ الکتاب (عربی)
(۲) طرق الخواص (فارسی
(۳) امالۃ القلوب (فارسی)
(۴) مفالیط عامہ (عربی)
(۵) سر الخواص (فارسی)
(۶) کتاب المبین (عربی)
(۷) مراتب وجود (فارسی)
(۸) رسالہ اعانۃ الاخوان (فارسی)
(۹) مونس العارفین (فارسی)
معاصرین حضرت شاہ محب اللہ الہ آبادیؒ
حضرت سید امیر ابوالعلا اکبرآبادیؒ
حضرت میر نعمان اکبرآبادیؒ
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ
حضرت شیخ احمد سرہندیؒ
حضرت علامہ محمود جونپوریؒ
حضرت مولانا عبد الرشید جون پوریؒ
حضرت شیخ محمد صادق گنگوہیؒ
حضرت شیخ کبیر مالا پیرؒ
شیخ جلال الدین بخاری
2 Comments
New CommentsSubhanallah..
کل الہ آباد میں موجود حضرت علامہ محب اللہ الہ آبادی علیہ الرحمہ کی خانقاہ میں جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں کے موجودہ سجادہ نشین کے صاحب زادے حضرت مفتی مقرب اللہ صاحب معروف بہ علی میاں سے ملاقات کا موقع میسر آیا۔حضرت مفتی صاحب ایک فعال اور ذی علم شخصیت ہیں۔خانقاہ سے متعلق بیشتر کاموں کا اہتمام وانصرام آپ ہی کی زیر نگرانی انجام پاتا ہے۔ آپ نے بیعت وارشاد کا سلسلہ بھی شروع کیا ہوا ہے، چنانچہ آپ وقتا فوقتا مریدین کی بے لوث تربیت بھی کرتے رہتے ہیں۔خانقاہ میں حاضر ہونے والے علما سے بھی آپ ہی ملاقات کرتے ہیں۔حضرت جس کمرے میں تشریف رکھتے ہیں وہ مختلف علوم وفنون سے کتابوں سے بھرا پڑا ہے۔ موصوف کا ارادہ ہے کہ اس قدیم خانقاہ کا ازسر نو احیاء کریں۔ رب کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ آپ کو اپنے جملہ کاموں میں قدم قدم پر فتح وکامرانی نصیب ہو۔
محمد ذکی
جامعہ عارفیہ ، سید سراواں، کوشامبی
۱۳؍مئی ۲۰۱۹