آپ سندھ کے قدیم شہر سیستان (سہون) میں پیدا ہوئے۔ یہ شہر ضلع دادو میں بھکر اور ٹھٹھہ کے درمیان واقع ہے۔ آپ کا خاندان قاضی خاندان کے طور پر مشہور تھا جن کے علم و فضل کا بڑا چرچا تھا۔ آپ کے آباؤاجداد عرصہ سے یہاں مقیم تھے۔ آپ کا بچپن یہیں گزرا آپ سندھی زبان بولتے تھے۔
سات سال کی عمر میں آپ کے والد انتقال فرما گئے۔ آپ نے والدہ ماجدہ کی سرپرستی میں مختلف اساتذہ سے ابتدائی علوم و فنون حاصل کئے۔ آپ نے اپنی والدہ ماجدہ سے جو زہد و تقویٰ کی بناء پر اپنے زمانے کی رابعہ بصری مشہور تھیں سلسلہ قادریہ کے سلوک کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
والدہ سے سلوک کی ابتدائی تربیت پانے کے بعد آپ نے ان کی اجازت سے سندھ میں سلسلہ قادریہ کے عظیم المرتبت صوفی حضرت شیخ خضر سیوستانی کے دست مبارک پر بیعت کر لی۔ ان کے فیوض و برکات سے پورا سندھ منور تھا۔ وہ تقویٰ، تقدس، توکل اور استغناء کے اوصاف عالیہ سے مزین تھے۔ توکل اور استغناء کا یہ عالم تھا کہ زندگی بھر اپنے پاس کوئی چیز نہ رکھی۔ آپ سیوستان کے باہر ایک پہاڑ میں مقیم رہے جہاں ان کا سارا وقت عبادت اور یادالٰہی میں گزرتا تھا۔ مرشد حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ ریاضت و مجاہدہ میں مصروف رہے تاآنکہ علوم باطنی کی تکمیل پر مرشد نے فرمایا کہ اب تمہارا کام مکمل ہو چکا ہے لہٰذا جہاں چاہو سکونت اختیار کر لو چنانچہ آپ ان کی اجازت سے لاہور تشریف لے آئے اور وصال تک یہیں رہے۔
آپ پچیس سال کی عمر میں 982ھ/1575ھ میں بعہد جلال الدین اکبر لاہور تشریف لائے لاہور میں قیام کے دوران آپ نے مولانا سعد اللہؒ، نعمت اللہ لاہوریؒ اور مفتی عبدالسلام لاہوریؒ علماء سے علوم و فنون پڑھے۔ شیخ محب اللہ الٰہ آبادیؒ، عبدالسلامؒ آپ کے ساتھ فیض یاب ہوئے۔
حضرت میاں میرؒ یہ دور جلال الدین اکبر کا عہد حکومت تھا۔ جو 993ھ بمطابق 1585ء سے 1006ھ بمطابق 1598ء تک مختلف بغاوتوں اور شورشوں کو دور کرنے کیلئے لاہور میں رہے۔ اس زمانے میں مسلمان کمزور اور اقلیت میں تھے۔ اصلاح احوال کیلئے دیگر علماء و صوفیاء کے ساتھ ساتھ سلسلہ قادریہ کے مشائخ کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ انہوں نے ہندوستان خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں اشاعت اسلام میں بڑا کردار ادا کیا۔ خصوصاً سلسلہ قادریہ کے عظیم بزرگ حضرت میاں میر قادری اور ان کے خلفاء کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ خاندان مغلیہ کے حکمران حضرت میاں میر سے عقیدت رکھتے تھے چنانچہ جہانگیر، شاہ جہاں، شہزادہ داراشکوہ، شہزادہ شہریار اور اورنگزیب عالمگیر آپ کے دربار میں حاضری کو سعادت سمجھتے تھے۔ آپ کے زہد و تقویٰ اور توکل و استغناء کے پیش نظر مسلم آبادی کے ساتھ ساتھ غیر مسلم آبادی بھی آپ سے خاص عقیدت رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گرو ارجن نے جب امرتسر میں دربار صاحب کی تعمیر کا ارادہ کیا تو عقیدت کے طور پر اس کا سنگ بنیاد حضرت میاں میر سے رکھوایا۔ اس طرح مہاراجہ رنجیت سنگھ زندگی بھر آپ کے مزار مبارک پر نذرانہ بھجواتا رہا۔
حضرت میاں میرؒفنافی اللہ کی منزل میں تھے‘ گوشہ نشین تھے اور شہرت سے بیزار تھے‘ یہی وجہ ہے کہ سندھ سے لاہور آنے کے بعد چالیس سال تک گمنام رہے۔ آپ کا لباس فقراء اور درویشوں جیسا نہ تھا۔ سفید دستار اور کھدر کا کرتا پہنتے تھے‘ آپ گدڑی نہیں پہنتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ لباس ایسا ہونا چاہئے کہ کوئی پہچان نہ سکے کہ اس کا مسلک درویشی ہے۔
آپ سراپا حسن اخلاق تھے۔ حسن اخلاق کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی شخص تھوڑی دیر کے لئے بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اس سے اس قدر عنایت و شفقت سے پیش آتے کہ اسے یہ خیال ہوتا کہ آپ کہ جو عنایت و شفقت مجھ پر ہے وہ کسی دوسرے پر نہیں۔ داراشکوہ کا بیان ہے کہ آپ اس قدر مجسمہ اخلاق تھے کہ اگر اخلاق کسی مرد کی صورت میں ہوتے تو حضرت میاں میرؒ کی صورت میں ہوتے۔
لاہور میں قیام کے دوران آپ کے علم و فضیلت کی شہرت ہوئی تو معتقدین اور طالبان علم بکثرت آپ کے پاس کسب فیض کے لئے آنے لگے۔ اسی اثنا میں آپ سرہند تشریف لے گئے۔ وہاں آپ گھٹنے کے درد اور دوسرے عوارض میں مبتلا ہو گئے۔ اس دوران حاجی نعمت اللہ سرہندیؒ نے آپ کی تیمار داری کی۔ صحت یاب ہونے پر فرمایا کہ مال و متاع نہیں جو تمہیں دوں لیکن روحانی دولت سے مالا مال کر سکتا ہوں‘ چنانچہ آپ نے ان پر خصوصی توجہ فرمائی اور ایک ہی ہفتہ میں سلوک کے درجہ کمال پر پہنچا دیا۔ سرہند ایک سال قیام کے بعد آپ واپس لاہور آئے اور آخر عمر تک یہیں مقیم رہ کر دعوت و ارشاد میں
مصروف رہے۔)